حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کی توبہ اور اسلام قبول کرنا

حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کی توبہ اور اسلام قبول کرنا

حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کی توبہ اور اسلام قبول کرنا

حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کی توبہ اور اسلام قبول کرنا ایک نہایت ہی اہم اور تاریخی واقعہ ہے جو اسلامی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام کے دشمنوں میں گزارا، لیکن جب اللہ کی ہدایت ان تک پہنچی تو انہوں نے اپنی زندگی کا رخ بدل دیا اور اسلام کو قبول کر لیا۔ ان کی توبہ اور اسلام قبول کرنے کا واقعہ نہ صرف ان کی زندگی کا ایک موڑ تھا بلکہ اس نے پورے معاشرے پر ایک گہرا اثر چھوڑا۔

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی توبہ ایک عظیم سبق دیتی ہے کہ انسان خواہ جتنا بھی گناہگار اور کافر ہو، اگر اس کے دل میں سچی توبہ کا ارادہ ہو اور وہ اللہ کی ہدایت کا طلب گار ہو، تو اللہ کی رحمت اور ہدایت ہر وقت اس کے قریب ہوتی ہے۔

1. حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا بچپن اور جوانی

حضرت عمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کا تعلق قریش کے مشہور خاندان سے تھا۔ آپ کا نسب نبی اکرم (صلى الله عليه وسلم) سے قریبی تعلق رکھتا ہے اور آپ کی والدہ کا نام حنتمہ تھا۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بچپن سے ہی انتہائی ذہین، محنتی اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا بچپن ایک آزاد اور مضبوط خاندان میں گزرا جہاں آپ نے اخلاقی اور جسمانی تربیت حاصل کی۔

آپ کی جوانی کا دور انتہائی تیز رفتاری اور حوصلے کا تھا۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) ایک طاقتور اور جرات مند شخص تھے جنہوں نے قریش کے معاشرتی ڈھانچے میں اہم مقام حاصل کیا۔ آپ اپنی قوم کے ایک اہم فرد کے طور پر جانے جاتے تھے اور آپ کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔

2. حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا اسلام دشمن ہونا

جب حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی، تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اسے اپنے لیے ایک خطرہ سمجھا۔ آپ نے اسلام کو نہ صرف رد کیا بلکہ نبی اکرم (صلى الله عليه وسلم) اور آپ کے پیروکاروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اس وقت اسلام کے سب سے بڑے دشمنوں میں شامل تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ اسلام قریش کے نظام اور روایات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے پریشان کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے ان کے خلاف سخت رویہ اپنایا اور ان کی تضحیک کرنے کی کوشش کی۔ آپ کا مقصد مسلمانوں کو تنگ کرنا اور اسلام کے پھیلاؤ کو روکنا تھا۔ لیکن اللہ کی مرضی اور حکمت کچھ اور تھی۔

3. حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی توبہ کی طرف آغاز

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی توبہ کا واقعہ انتہائی دلچسپ اور عبرت انگیز ہے۔ ایک دن حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے عزم کر لیا کہ وہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو قتل کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیں گے۔ آپ اس ارادے کے ساتھ گھر سے نکلے اور راستے میں آپ کو ایک شخص مل گیا جس نے آپ سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اسے بتایا کہ وہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کو قتل کرنے جا رہے ہیں۔

اس شخص نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو ایک سوال کیا کہ تم اپنے خاندان کی اصلاح کی فکر کرو، کیوں نہ پہلے اپنی بہن فاطمہ (رضی اللہ عنہ) کو دیکھو جو اسلام قبول کر چکی ہیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے یہ بات سنی اور فوراً اپنی بہن کے گھر کی طرف رخ کیا۔ جب وہ وہاں پہنچے، تو بہن اور ان کے شوہر حضرت سعید بن زید (رضی اللہ عنہ) قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے غصے میں آ کر انہیں ڈانٹا اور کہا کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو، کیا تم بھی محمد (صلى الله عليه وسلم) کے پیروکار بن گئے ہو؟ بہن نے جواب دیا کہ ہم سچ کو قبول کر چکے ہیں۔

اس وقت حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل میں ایک تبدیلی آئی۔ وہ قرآن کی تلاوت سننے کے لیے رکے اور جو آیت انہوں نے سنی وہ تھی:

"إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَن أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ" (القصص 28:56)
"آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔"

یہ آیت حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل میں اتر گئی اور ان کا دل نرم ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے ارادے کو تبدیل کیا اور اسلام قبول کرنے کی ٹھانی۔

4. حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا اسلام قبول کرنا

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے فوراً نبی اکرم (صلى الله عليه وسلم) کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ آپ مسجد حرام میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کے سامنے آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ نبی اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے آپ کا اسلام قبول کیا اور اللہ کی طرف سے آپ کے اسلام کی ہدایت کی دعا کی۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی توبہ اور اسلام قبول کرنا اس بات کا واضح نشان تھا کہ اللہ کی ہدایت اور رحمت ہر کسی کے لیے کھلی ہوئی ہے۔

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی زندگی میں مکمل تبدیلی آ گئی۔ آپ نے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں تبدیلی کی بلکہ اسلام کے لیے اپنی خدمات بھی شروع کر دیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت میں جو طاقت، جرات اور ایمانداری تھی وہ اسلام کے کام میں آ کر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم رہنمائی ثابت ہوئی۔

5. حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی اسلامی خدمات

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا اسلام قبول کرنے کے بعد جو کردار تھا، وہ صرف ایک شخص کی توبہ کا قصہ نہیں بلکہ پورے اسلامی معاشرے کے لیے ایک رہنمائی کا ذریعہ بن گیا۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی فتوحات، عدلیہ، نظام حکومت اور اجتماعی خدمات اسلامی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جاتی ہیں۔

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اسلامی حکومت کے معاملات میں ایک نیا معیار قائم کیا۔ آپ نے عدلیہ کو بہتر بنانے، ظلم کے خلاف کھڑا ہونے اور غریبوں کی مدد کرنے کے لیے بہت سی اصلاحات کیں۔ آپ کی حکومت میں عدل و انصاف کا بول بالا تھا اور آپ نے ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیے فیصلے کیے۔

6. حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا اثر

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی زندگی کا یہ واقعہ ایک سبق دیتا ہے کہ انسان خواہ جتنا بھی گناہگار یا کافر ہو، اللہ کی ہدایت ہمیشہ قریب ہوتی ہے۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی توبہ اور اسلام قبول کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت کسی کے لیے بھی بند نہیں ہوتی اور اللہ کے راستے پر چلنا ہمیشہ ممکن ہوتا ہے۔

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا اسلام قبول کرنے کے بعد کا عمل پورے معاشرے کے لیے ایک نمونہ ہے۔ آپ نے نہ صرف اپنی زندگی میں انقلاب لایا بلکہ پورے اسلام کو ایک نئی سمت اور طاقت دی۔ آپ کی زندگی کا یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی ہدایت انسان کو ہر حال میں مل سکتی ہے، بشرطیکہ دل میں سچی توبہ اور اللہ کی رضا کی طلب ہو۔