حصہ اول: پراسرار گھڑی
زیان، ایک سولہ سالہ ذہین مگر کچھ کھویا کھویا سا لڑکا، اکثر تنہائی میں کتابوں کی دنیا میں گم رہتا تھا۔ اُس کے دادا، جو کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے تھے، ایک وقت میں مشہور ماہرِ طبیعیات رہ چکے تھے۔ اُن کا کمرہ، جو برسوں سے بند پڑا تھا، آج پہلی بار کھولا گیا۔
زیان کا دل عجیب سا ہو رہا تھا۔ اُس نے لکڑی کی پرانی الماری کھولی، تو ایک مٹی سے بھرا ہوا بکسہ اُس کے سامنے آیا۔ بکسے کے اندر ایک چھوٹی سی سنہری گھڑی پڑی تھی۔ مگر یہ کوئی عام گھڑی نہ تھی۔ اُس کی سوئیاں الٹی سمت میں چل رہی تھیں، اور اُس کے اندر شیشے پر باریک عربی میں کچھ لکھا تھا:
"الوقتُ كالسيف، إن لم تقطعه قطعك"
(وقت تلوار کی مانند ہے، اگر تم نے اُسے نہ کاٹا تو وہ تمہیں کاٹ دے گا۔)
زیان نے جیسے ہی گھڑی کو ہاتھ میں لیا، ایک زوردار روشنی پھیلی، اور اچانک اُس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلا ہونے لگا...
جب اُسے ہوش آیا، تو وہ ایک اجنبی جگہ پر کھڑا تھا — نہ وہ زمانہ اُس کا تھا، نہ وہ لوگ۔
حصہ دوم: ماضی کی گلیوں میں
زیان اب قرطبہ (Cordoba) کے قدیم شہر میں تھا۔ سن 940 عیسوی — اندلس کی گلیوں میں، جہاں علم، ادب اور تہذیب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ حیرت زدہ تھا، مگر اُس نے جلد ہی سمجھ لیا کہ وہ وقت کی مسافت پر نکل چکا ہے۔
ایک عالمِ دین، امام زید، نے اُسے اپنے حجرے میں پناہ دی۔ زیان نے حیرت سے اُن کے کتب خانے کو دیکھا — سینکڑوں نایاب کتابیں، وہ تمام علوم جو آج کے دور میں صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں، یہاں روز مرہ کا علم تھے۔
امام زید نے اُسے بتایا:
"بیٹا، وقت ایک امانت ہے۔ تم جیسے لوگ کبھی کبھار اس دھارے کو چیر کر آتے ہیں۔ اگر تم آئے ہو، تو کوئی مقصد ضرور ہے۔"
زیان اب جاننا چاہتا تھا کہ واپس کیسے جائے — مگر گھڑی خاموش تھی۔ اُس کی سوئیاں رکی ہوئی تھیں..